تمنا اورحسیب کے بیچ ایک دنیا حائل ہوچکی تھی۔ اس دنیا کے مرکزی کردار کوئی اور نہیں اُن کے اپنے والد صاحبان تھے۔ بات زیادہ پرانی نہیں۔ یہی کوئی دو سال پہلے تک سب کچھ اچھا چل رہا تھا۔ شھزاد چودھری اورکمال خان دوست کم اور بھائی زیادہ گردانے جاتے تھے۔ کاروبار تو دونوں کا مشترکہ تھا ہی، گھر بھی دونوں نے ساتھ ساتھ ہی بنایا تھا۔ اور تو اور بیچ والی دیوار میں بغیرکنڈی کے دروازہ بھی لگا چھوڑا تھا تاکہ ایک دوسرے کے گھر آمدورفت میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ اوراب اس تعلق کو مذید مضبوط کرنے کے لیے دونوں دوستوں نے اپنے بچوں کا رشتہ بھی طے کر دیا تھا۔
شہزاد صاحب کی بیٹی تمنا اور کمال صاحب کا بیٹا حسیب، دونوں ہی اپنے والدین کی اکلوتی اولادیں تھیں۔ تمنا ڈاکٹری کے آخری سال میں تھی اور حسیب اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کرنے میں مصروف تھا۔ برسوں سے ساتھ ساتھ گھروں میں رہ رہے تھے لیکن بچوں کا آپس میں ملنا جلنا کم ہی تھا۔ دونوں اپنی ہی دنیا میں مگن رہتے تھے۔ زبردستی کے رشتے پر پہلے پہل تو دونوں نے خوب احتجاج کیا۔ جب بھوک ہڑتال سے لے کربھاگ جانے تک کی دھمکی کام نہ آئی تودونوں نے مل کر کوئی حکمتِ عملی طے کرنے کی ٹھانی۔ دو چار ملاقاتیں ہوئیں تو پتا چلا کہ دونوں کے نہ صرف مزاج بہت ملتے ہیں بلکہ دونوں کی پسند نا پسند بھی ایک ہی جیسی ہے۔ بس پھر کیا تھا،دونوں میں خوب جچنے لگی۔ کوئی روک ٹوک تو تھی نہیں اورپھردیکھتے ہی دیکھتے دونوں یک جان دو قالب ہو گئے۔ منگنی کو چھ ماہ بھی نہ گذرے تھے کہ تمنا کی آدھی سے ذیادہ چیزیں حسیب کے کمرے میں پہنچ چُکی تھیں۔ اورحسیب کی کوئی چیز جو اپنے گھر سے نہ مل رہی ہو وہ یقینا تمنا کے کمرے سے برآمد ہوتی تھی۔
پلک جپکتے ہی ایک سال بیت گیا۔ تمنا کا ہاوس جاب شروع ہو چکا تھا۔ آج کل میں شادی کی بات چل رہی تھی کہ حسیب کو اپنی ریسریچ کے سلسلے میں امریکا کا ایک سال کا ویزا مل گیا. یہ ویزا بہت مشکل سے ملا تھا اس لیے حسیب اسکو ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا. اورایک سال کے لیے باہر جاتے ہوئے وہ تمنا کوانتظارکی سولی پربھی نہیں لٹکانا چاہتا تھا۔ اسلئیے اُس نے تمنا سے مشورے کے ساتھ امریکا سے واپسی تک شادی موّخر کرنے کا اعلان کر دیا۔ حسبِ توقع والدین نے بچوں کی مرضی کو نظر اندازکرتے ہوئے اپنا فیصلہ برقرار رکھا۔ بحرحال بات کو بلکل بگھڑنے سے بچانے کے لیے درمیانی راہ یہ نکلی کہ نکاح ابھی کر دیا جائے اور رخصتی حسیب کی امریکا یاترا کے بعد۔ دونوں بچے بھی اس بات پر رضامند ہو گئے۔ پھر کیا تھا۔ فورا چَند نذدیکی رشتہ داروں کو اکٹھا کیا گیا اور ایک سادہ سی تقریب میں حسیب اور تمنا کا نکاح کر دیا گیا۔ اس کے چند روزبعدحسیب امریکا روانہ ہو گیا۔
حسیب کو امریکا گئے ابھی دو مہینے بھی نہ گزرے تھے کہ دونوں دوستوں کو کاروبار میں نقصان ہونا شروع ہو گیا۔ بات جلد ہی الزام بازی سے بڑھ کر لڑائی جھگڑے تک جا پہنچی۔ دونوں ہی انا پرست اور ضدی طبیعت کے مالک تھے اس لئے کوئی بھی نقصان کا ذمہ لینے کو تیار نہ ہوا۔ چھ مہینے میں ہی بات بڑھتے بڑھتے شراکت داری ختم کرنے تک جا پہنچی۔
تمنا اور حسیب اپنی دھن میں مگن اپنی زندگی گزار رہے تھے۔ اتنا انداذہ تو انہیں تھا کہ کوئی ٹینشن چل رہی ہے لیکن یہ تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بات بہت دور تلک جا پہنچے گی۔ اب تو ان کے نکاح کو بھی ایک برس بیت چکا تھا۔ حسیب امریکا سے واپس آنے والا تھا اور تمنا اُس کا شدت ے انتظار کرہی تھی۔
بم تو اُس وقت پھوٹا جب ایک دن خلافِ معمول شہزاد صاحب آفس سے جلدی گھر لوٹ آئے۔ شام کی چائے کے دوران ہی بیگم نے تمنا کی رختصی کے بارے میں پوچھ لیا۔ شہزاد صاحب تو جیسے بھرے بیٹھے تھے۔ انہوں نے آفس کا سارا غصہ بیگم پر ہی اتار دیا۔ بیگم بیچاری چپ چاپ سب سنتی رہیں۔ صاحب ٹھندے ہوئے توکہنے لگیں کہ بیٹی کا معاملہ ہے کچھ تو خیال کریں۔ لیکن شہزاد صاحب نے صاف صاف کہہ دیا کہ جب تک کمال اپنی کوتاہی تسلیم نہیں کرتا تب تک رخصتی کا خیال دل سے نکال دو۔ شہزاد صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ اپنا حصہ لےکرالگ ہو رہے ہیں اوراب وہ کمال خان کی صورت بھی دیکھنے کے روا نہیں۔ بیگم نے بہت واسطے دیے لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ بیگم جوایک گھریلوقسم کی خاتون تھیں اپنے شوہرکی باتیں سن کر ششدر رہ گئیں اورتمنا جواپنے کمرے کے دروازے میں کھڑی سب سن رہی تھی اُس میں تو اتنی سکت بھی نہ رہی کہ دروازہ بند کرکہ کہیں بیٹھ جاتی۔ وہ تو وہیں چکرا کردھڑام سے گِھر گئ۔ آواز سن کر ماں باپ بھاگم بھاگ اندرپہنچے تو اپنی اکلوتی اورانتہائی لاڈلی بیٹی کواپنے کمرے کے فرش پر بہوش پایا۔ ماں کے تو ہاتھ پاوں پھول گئے۔ کچھ نہ بن پایا تو اونچااونچا رونا شروع کر دیا۔ شہزاد صاحب نے پہلے تواپنی بیگم کوڈانٹ کرچپ کرایا اورپھراپنے فیملی ڈاکٹرکو فون کر دیا۔ ان کا نزدیک ہی کلینک تھا اسلیئے پندرہ بیس منٹ میں وہ بھی پہنچ گئے۔ اتنے میں تمنا بھی ہوش میں آ چکی تھی۔ تفصیلی معائنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے تمنا کو بلکل ٹھیک قراردے دیا اورآرام کا مشورہ دے کرچل دیئے۔ شہزاد صاحب بھی بیٹی کے سرپرہاتھ پھیرکراپنے کمرے میں چلے گئے لیکن بیگم صاحبہ اپنی بیٹی کی تیمارداری میں جٹ گئیں۔ ان کو خوب اندازہ تھا کہ تمنا حسیب کے بغیرنہیں رہ سکتی اسلئے وہ اپنے شوہرکومنانےکےمنصوبےسوچنے لگیں۔
اخلاق صاحب شہر کی ایک بڑی کاروباری شخصیت ہیں۔ انکی بیگم اپنے سوشل ورک اور رفاءِعامہ کے کاموں کی وجہ سے اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ اخلاق صاحب کی کمال خان اور شہزاد چودھری کے ساتھ علیک سلیک تو تھی لیکن اِن کی بیگمات کی آپس میں خوب بنتی تھی۔ انہی دنوں ایک شادی کی تقریب میں تینوں کی ملاقات ہو گئی۔ باتوں باتوں میں تمنا اور حسیب کی شادی کا ذکربھی چھڑ گیا۔ اخلاق صاحب کی بیگم کو جو صورتِ حال سے آگاہی ہوئی توانہوں نے بہت افسوس کا اظہار کیا۔ زمانے کی اونچ نیچ سمجھائی، پھرتفِ افسوس ملتے ہوئے کہنے لگیں کہ ان مردوں کی انا بازی میں ہم بیچاری خواتین قربانی کا بکرا بن جاتی ہیں۔ گھرجاکراخلاق صاحب کی بیگم نے تمام احوال اپنے شوہر کو سنایا اورانکو اس معاملے میں کچھ کرنے کی پرزوراِستدا بھی کرڈالی۔ چند روزبعد اخلاق صاحب نےایک مناسب موقع پرکمال خان اورشہزاد چودھری کو اکٹھا کیا اوراپنی بیگم کے دل کی بات اپنی زبان سے کہہ ڈالئ۔ دونوں دوستوں نے اخلاق صاحب کے سامنے تو اپنے معاملات سلجھانے کا وعدہ کیا لیکن آفس آتے ہی وہ گھمسان کا رن پڑا کہ خدا کی پناہ۔ دونوں نے اخلاق صاحب کی ان کے ذاتی معاملات میں مداخلت کا ذمہ ایک دوسرے کے گلے ڈال دیا۔ اوراس دفعہ تو بات ہاتھا پائی تک جا پہنچی۔
شہزاد صاحب نے گھر پہنچتے ہی اعلان کر دیا کہ انہوں نے شہرکے دوسرے کونے میں ایک بڑامکان کرائے پرلے لیا ہے اوراس اتوارکووہ سب وہاں شفٹ ہورہے ہیں۔ مذید انہوں نے یہ تک بتا دیا کہ وہ جلد ہی اپنا حصہ لے کر کاروبار بھی الگ کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں انہوں نے کمپنی کے وکیل کو ضروری ہدایات بھی دے ڈالی ہیں۔ اس دفعہ تو تمنا کے ساتھ ساتھ شہزاد صاحب کی بیگم بھی اپنے ہوش کھو بیٹھیں۔
پوری رات ماں بیٹی سر جوڑ کر بیٹھی رہیں۔ دوسری طرف حسیب بھی جو امریکہ سے لوٹ آیا تھا، سو دفعہ تمنا کو کہہ چکا تھا کہ تم شرعی اور قانونی طور پر میری بیوی ہواسلیئےاپنا بیگ اٹھاوُ اور سیدھا میرے گھر چلی آؤ۔ اب تو لگ رہا تھا کہ اس کے سوا کوئی اور چارہ بھی نہیں رہا تھا۔ اگلے دن جب حضرات آفس تشریف لے گئے تودونوں کی بیگمات نے اپنے اوربچوں کے قریبی دوستوں کو فون کر کے بلا لیا۔ جلد ازجلد رخصتی کا ارادہ تھا اسلیئےعصرکےفوری بعد حسیب بارات لے کر آگیا۔ ساتھ والے گھر سے تو آنا تھا۔ مہمانوں کی تواضع چائےسے کی گئی اورمغرب سے پہلے ہی وہ اپنی دلہنیا کو لے کرواپس اپنے گھرچلا گیا۔
رات نو بجے کے قریب شہزاد صاحب جب گھر پہنچے تو پورچ میں اور ڈرائیو وئے میں پھول ہی پھول دیکھ کر تھوڑا حیران ہوئے۔ لان میں لگی کرسیوں نے انہیں تھوڑا پریشان بھی کر دیا۔ تیزتیز قدم اٹھاتے گھر میں داخل ہوئے- سامنے ہی لاؤنج میں بیگم بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔ پاس پہنچتے ہی شہزاد صاحب نے ذرا اونچی آواز میں پوچھا کہ بیگم آج گھر میں کؤئی پارٹی وارٹی تھی کیا۔ بیگم کا دل تو زور زور سے دھڑک رہا تھا لیکن نظرٹی وی کی سکرین پرجماتے ہؤے مضبوط لہجے میں گویا ہوئیں کہ آج ہماری بیٹی کی رخصتی تھی۔ شہزاد صاحب کے تو جیسے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ سفید رنگت لال پیلی ہوگئی اور سانس تیز تیز چلنے لگی۔ جن قدموں پرآئے تھے ان پر ہی واپس لوٹ گئے۔ غصے سے لبالب بھرے وہ آج پورے دوسال کے بعد اپنے اور کمال خان کےگھر کے درمیانی دروازے پر کھڑے تھے۔ انھوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ آج وہ یہ قصہ تمام کرکے ہی چھوڑیں گئے۔ دونوں گھروں کے بیچ بنی یہ دیوارانہیں اپنی انا کی دیوار جیسے دِکھائی دینے لگی۔ کافی دیرتک وہ دم بخود کھڑے سوچوں کے منجدھارمیں ڈوبتے ابھرتے رہے۔ جونہی آنکھیں بند کرتے تو دورساحل پر کھڑی تمنا کسی ننھی گھڑیا کی مانند اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے انہیں اپنی جانب بلارہی نظرآتی ۔ اتنے میں ہوا سے دروازہ کھل گیا اورشہزاد صاحب کو کھلے دروازے کے پار اپنا جگری دوست کھڑا نظر آیا۔ شہزاد صاحب کے دل کی ڈھرکن جیسے رک سی گئ ۔ دونوں دوستوں کی نظریں ملیں تو انّا کی دیوار بھی دھڑم سے زمیں بوس ہو گئی۔ کامران خان نے چند قدم آگے لیے اور اپنا دائیں ہاتھ مصافے کے لیے بڑھا دیا ۔ شہزاد صاحب نے بھی دیوڑھی پارکرکے اپنے دیرینا دوست کو گلے لگا لیا۔
باہر ہونے والے معجزے سے بے خبر تمنا اپنے حسیب کی آغوش میں سر رکھے اطمینان کی نیند سو رہی تھی اور دور کہیں سے سادھنا کی ہلکی ہلکی مدھرسریلی آواز اپنا جادو جگا رہی تھی۔۔۔۔ دل کو دھڑکا لگا تھا پل پل کا، شور سن لے نہ کؤئی پائل کا۔۔۔ پھر بھی تیری قسم چلے آئے۔
Written By: Nadeem Alam, 6 Sep 2018
0 Comments