وہ ایک کھلنڈرا  سا نوجوان تھا جس نے نہ تعلیم حاصل کرنے میں دلچسبی لی اور نہ ہی کوئی ہنر سیکھا۔ گھر سے بستہ اٹھا کر وہ روزانہ سکول تو جاتا تھا  لیکن  سارا  دن کسی پارک میں گزار دیتا ۔  پھر اسکی دوستی کچھ مزید آوارہ بچوں سے  ہو گئی جو نشہ کرتے تھے۔ سگریٹ کا  وہ بہت پہلے سے ہی شوقین تھا اور اب اس نے چرس بھی پینی شروع کر دی۔ گھر سے جو دو چار روپے ماں دیتی تھی اس میں سگریٹ بیڑی تو آ جاتی تھی لیکن  چرس کا خرچہ پورا کرنے کے لیے اس نے پاکٹ مارنے شروع کر دیے۔ پارک میں خفیہ ملاقاتوں پر آئے جوڑوں سے بھی کچھ بخشیش مل جاتی تھی ۔ کافی دفعہ پولیس سے مڈبھیڑ ہوئی ۔ ایک  بار تو  چند راتیں تھانے میں  گزارنی پڑیں۔ حوالات میں اسکی دوستی جیرا بلیڈ سے ہو گئی  اور اس طرح  وہ باقاعدہ جرائم کی دنیا میں داخل ہو گیا۔

“سر، یہ آپ کس کی کہانی لکھ رہے ہیں۔۔۔؟” میری کرسی کے پیچھے کھڑے عامر نےمتجسس انداز میں  سوال کیا۔

میں نے مڑ کر عامر کو  دیکھا جو میری کمپیوٹر سکرین پر نظر جمائے کھڑا تھا۔ وہ ہمارے دفترمیں چپڑاسی تھا اورعام طور پر صرف اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔ فرصت کے لمحات میں وہ چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھا رہتا ۔ تھوڑا بہت پڑھ لکھ لیتا تھا اس لیے میں کبھی کبھار اسے کچھ پڑھنے کو دے دیتا  اور سب کے جانے کے بعد وہ میرے ساتھ   ایک سیرحاصل گفتگو کر لیتا ۔ کوئی تعلیمی سند تو اس کے پاس نہ تھی لیکن وہ ایک حقیقت پسند انسان تھا اور دنیا کی اونچ نیچ سے واقف تھا۔اس کا تبصرہ مجھے بہت پسند آتا ۔ ایک دفعہ میرے اصرار پر اس نے اپنی چالیس سالہ زندگی میرے سامنے کھول کر رکھ دی۔ اپنی گزری زندگی،اپنے ماں باپ اور اپنی اکلوتی بہن کو یاد کر کے اس دن وہ بہت رویا ۔ زندگی میں جب  اسکو احساس ہوا کہ وہ کیا کچھ کھو چکا ہے تواس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی لیکن توبہ کا دروازہ کھلا تھا۔ کچھ عرصہ پہلےاسنے اندھیرنگری کا سفر ادھورا  چھوڑااور روشنی کے راستے  پر گامزن ہو گیا۔ پھر کسی جاننے والے کے توسط سے اسے یہاں نوکری بھی مل گئی۔

مجھےاپنی رام لیلی سنائے عامر کوپورا ایک سال بیت چکا  تھا اور اس موضوع پر  دوبارہ  اسنےکبھی زبان نہیں کھولی۔  اس وقت  شام کے سات بج رہےتھے اور دفترکے سب لوگ جا چکے تھے ۔ میرا گھر جانے کا ابھی کوئی ارادہ نہیں  تھا۔ نجانے کیا سوچ کر میں نے اسکی  کہانی لکھنی شروع کر دی۔ ابھی پہلا پیرا بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ عامر نے بہت مشکل سوال کر دیا۔

“سر، یہ آپ کس کی کہانی لکھ رہے ہیں۔۔۔؟”   

اس سے پہلے کہ مجھے کوئی  جواب سوجھتا، وہ خود ہی بول پڑا:

“مجھے تو  یہ  اپنی کہانی لگتی ہے سر۔یہاں میرے ماضی سے کوئی واقف نہیں اور بہت مشکل سے مجھے یہ نوکری ملی تھی لیکن لگتا ہے آپ یہاں سے نکلوا کر چھوڑیں گے۔ اب مجھے احساس ہو رہا ہے کہ آپ کو اپنی آپ بیتی سنا کر میں نےشائد غلطی کی ۔” اس کے لہجے میں تفکر نمایاں  تھا۔ میں نے تھوڑا  جھینپ کر اسے تسلی دینے کی ناکام کوشش کی:   

“عامر،یہ صرف تمھاری کہانی نہیں  بلکہ  ہمارے اکثر گھروں کا یہی حال ہے۔”

“اچھا تو کیا ہر گھر میں یہی کچھ ہو رہا ہے!” اس نے بڑے چبتے ہوئے لہجے میں مجھ سےپوچھا۔

“کیا آپ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا تھا؟” اس نے ایک اورکاری وار کیا۔

“کیا آپ کسی اور کو بھی جانتے ہیں جس کے ساتھ تقدیر نے ایسا گناونا   مذاق کیا ہو؟”

مجھے لاجواب پا کر آخر وہ پھٹ پڑا :

“ٹھیک ہے سر۔ آپ لکھیں ،میری طرف سے اجازت ہے ۔ اور ہاں، آپ نے ٹھیک لکھا کہ میں ایک آوارہ ،  چرسی، جواری، شرابی اور چور تھا۔ آپ یہ بھی لکھیں کہ میں ایک قاتل ہوں۔ ہاں سر،  میں قاتل ہوں۔ میں نے اپنے ماں باپ کے ارمانوں کا خون کیا ہے۔ میں نے اپنی بہن کا زیور بیچ کر اسے زندہ  درگور کر دیا۔میں نے اپنی  جوانی پاتال  میں قربان کر دی۔ میں قابلِ معافی نہیں۔ لیکن سر یہ بھی ضرور لکھنا کہ میں ایسا پیدا نہیں ہوا تھا۔ وہ حالات بھی بتانا جنہوں نے مجھے یہاں تک پہنچایا۔ میرے ان استادوں کا بھی ذکر کرنا جن کی مار سے بچنے کے لیے میں نے سکول چھوڑا۔  اس ماحول کا بھی تذکرہ کرنا جس میں بچوں کو نشہ سرِعام میسر ہے۔ اس   سسٹم کے بارے میں بھی لکھنا سر جس نے ایک چودہ پندرہ سال کے بچے کو عادی مجرموں کا ہم نوالا بنا دیا۔”  

عامر تو مجھے شرمندہ کر کےدفتر سے نکل گیا لیکن میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ کیا واقعی ہی یہ ہمارے معاشرے کا قصور ہے جس میں عامر جیسے بچے سکول چھوڑ کر نشہ شروع  کر دیتے ہیں اور  نظام کی بےحسی کا شکار ہو کر جرائم کی دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ پھر میری نظر سائید ٹیبل پر بچھی اخبار کے رنگین صفحے پر پڑی جس میں ایک چھوٹے سے گاوں کے سرکاری سکول سے پڑھ کر دنیا کی بہترین یونیورسٹی کا وظیفہ حاصل کرنے والے جمیل احمد کی کہانی چھپی تھی۔

مصنف: ندیم عالم

Categories: Stories

0 Comments

Leave a Reply

Avatar placeholder

Your email address will not be published. Required fields are marked *